بدھ، 13 مئی، 2009

ہائیکنگ کی روداد

یکم مئی کو ہم یہاں اسلام آباد سے صبح 5:40 پر نکلے تھے اس سے پہلے میں یہاں اپنے گھر سے 4:30 پر نکل چکا تھا ضروری اشیاء اپنے بیگ میں پیک کرلی تھیں دوست کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ مجھے پوری رات نیند نہیں آئی صرف گھنٹہ سوپایا تھا وجہ خوشی تھی۔ خیر اس کے گھر سے ہم 5:40 پر نکلے وہاں سے مارگلہ کی پہاڑیوں کا فاصلہ 55 منٹ تھا میرا ارادہ تھا وہاں سے ٹیکسی پکڑ کر وہاں پہنچیں مگر میرا ساتھی مصر تھا کہ پیدل ہی چلنا ہے خیر 55 منٹ ہم نے میدانی راستے میں گزارلیے۔ ٹریل فائیو پر پہنچے، صبح کا وقت تھا ابھی سورج بھی نہیں نکلا تھا ۔ ہر سوپرندوں کی آوازیں آرہی تھیں ساتھ میں پہاڑی جھاڑیاں اور پہاڑی سلسلہ اوپر نیلگوں آسماں گویا ہم فطرت کے قریب تھے تھوڑا آگے چلے تو ہم نے ایک پرندے کو بھاگتے دیکھا شاید وہ جھنگلی مرغی تھی، طرح طرح کے پودے اور جھنگلی پھول بھی نظر آئے، تیتر کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی اچانک خیال آیاکہ یہ انسان بھی کتنا سنگدل ہے پرندوں کو پنجروں میں بند کرکہ آزادی سلب کردیتا ہے ان کے آشیانے برباد کردیتا ہے صرف ذاتی شوق کی خاطر مخلوق خدا کو قید کردیتا ہے، تقریبا ڈھائی گھنٹے بعد ہم پیر سوہاوا پہنچے۔ وہاں روڈ پر پہنچ کر ہم صوبہ سرحد اور اسلام آباد کی سرحد پہنچے وہاں ناشتہ کیا اور لوگوں سے پتہ کیا کہ ہم نے مکھنیال گاؤں جانا ہے اور پھر وہاں سے کوہالا جانا ہے تو لوگ حیرت سے دیکھنے لگے انہوں نے کہا کہ یہاں سے 30 کلومیٹر دور ہے تو ساتھی نے کہا کوئی بات نہیں ہم وہاں چلے جائیں گے، خیر میری اس سے وہاں سے لڑائی شروع ہوگئی کہنے لگا اگر اتنے دور کے سفر کا پتہ نہیں تھا تو کیوں نکلے ہیں 30 کلومیٹر سڑک کا سفر، میں نے کونسا جرم کیا ہے خیر کسی اور بندے نے ایک اور مشور دیا جو کافی ٹھیک تھا میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رورتے پیٹتے اس کے ساتھ سفر شروع کیا آگے جاگے اندازہ ہوا کہ میرے ساتھی کو راستے کا ککھ بھی نہیں پتہ خیر جیسے تیسے کافی چڑہائی چڑہنے کے بعد وہاں اس گاؤں میں پہنچے پتہ لگا وہاں پراپرٹی کافی مہنگی ہوگئی ہے ہم جس سے بھی راستے کا پتہ کرتے ہمیں شک کی نگاہ دیکھتے کہ شاید ان کی عقل چلی گئی ہے ، خیر وہاں سے پتہ کرکہ ہم کمبل گلی پہنچے وہاں سے پھر ہم پک شاہی پہنچے ، گاؤں بڑا خوبصورت تھا ہر طرف سبزہ تھا ایک دو بندوں سے پتہ کرکہ ہم ایک اور سڑک پر پہنچے یاد رہے کہ ہم نے کوہالے کا پروگرام کینسل کرلیا وہاں سڑک پر تین بچے ملے ہم نے پوچھا یہاں سے ہم نےترناوا جانا ہے کتنا وقت لگے گا بچوں نے کہا آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے یہاں سے اگر پیدل جائیں تو کل صبح وہاں پہنچ جائیں گے بہتر ہے یہاں سے بس جاتی ہے اس میں بیٹھ جائیں میرا ساتھی پھر بھی مصر رہا کہ پیدل ہی جانا ہے یہ لڑکے ایسے ہی بول رہے ہیں خیر ہم وہاں سے پیدل چلے اور بچھوڑا گلی سے ہوکر دیسرا پہنچے وہاں ہوٹل تھا چائے پی اور کھانا کھایا میر ا ساتھ وہاں چار پائی پر ڈھیر ہوگیا ہوٹل والوں سے پتہ کیا کہ ہم نے ترناوا جانا ہے مگر پیدل جانا ہے وہ بھی ہنسنے لگے ہم نے پورا قصہ سنایا کہ فلاں فلاں جگہ سے ہو کر آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کو کسی نہ غلط راستہ بتایا ہے سیدھا راستہ فلاں ہے اس وقت مجھے بھی موقعہ ملا میں نے ساتھی پر غصہ اتاردیا ۔ہم نے ایک بندے کے پاس رات گزارنی تھی شک یہ ہوا کہ اس نے صحیح راہنمائی اس لئے نہیں کہ ہم اس کے پاس نہ پہنچ سکیں آخر کارمیرے غصے نے کام کر دکھایا اور وہاں سے بس میں بیٹھے اور ڈیڑہ گھنٹے میں ہم ترناوا پہنچے وہاں سے ہم خانپور ڈیم گئے اس سے آگے دس کلومیٹر دور اس کے رشتہ دار کا گھر تھا اب پھر سےمیرے ساتھی کو پیدل چلنے کا شوق چڑہا کہ ہم نے وہاں تک پیدل جانا ہے میں نے کہا ایسا کریں آپ پیدل آجانا میں بس میں جاتا ہوں خیر وہاں سے بس بیٹھے وہاں گاؤں میں پہنچے رات وہاں گزاری رات کو وہاں ایک بندے سے بات ہوئی جو آئی ایس آئی سے مستعفی ہوا تھا اس نے باتوں باتوں میں بتادیا کہ اس کی 80 کی دہائی میں افغانستان میں ملا عمر سے ملاقات ہوئی تھی وہ ملا عمر سے بڑا متاثر تھا اور اس نے مزید بتایا کہ انہی دنوں سے ہم ان لوگوں کو آگے لارہے تھے۔ میری زنبیل میں ایک ریڈیو سیٹ بھی تھا سو خبریں بھی سنیں اور سوگیا۔صبح ہم نے واپسی کا راستہ لیا وہاں ہم نے گندم کٹتے دیکھی اور پہاڑی بکریا بھی دیکھیں۔ پھر بس میں ترناوا پہنچے وہاں سے پھر پیدل چلے دوسرا راستہ لیا چھوئی سے ہم گرم تھون پہنچے ۔گرم تھون کے لئے مقامی لوگ کہ رہے تھے یہ ایک انگریز کے نام پر ہے گرم تھون میں ہم نے جنگلی زیتون کے درخت دیکھے جن پر اب سرکار باہر سے درآمد کردہ زیتون سے پیوند کاری کررہی تھی وہاں سے ہم نے ایک قدرتی نالا پکڑا اور وہاں سے ہوتے ہوئے ہم چمبہ گاؤں پہنچے پھر وہاں سے ہم کوٹ جنداں پہنچے کوٹ جنداں میں میں نے ایک آٹے کی چکی دیکھی جو پانی پر چل رہی تھی خیر وہاں نکل کر ہم سنہیاڑی پہنچے اور وہاں سے اسلام آباد۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں