وہ جو محبت کی دیوی تھی
کہاں گئی کسی کو نہیں پتہ
وہ جو کانوں میں رس گھولتی تھی
جس کے میٹھے میٹھے بول
کسی کی جان کی دھڑکن تھے
کہاں گئی مجھے تلاش ہے
وہ اتنی شیریں تھی کہ
شہد بھی شرماتی تھی
وہ جب بولتی تھی
کائنات جھوم اٹھتی تھی
مگر اچانک یہ سناٹا
کہیں وہ چاند کی چاندنی تو نہیں بن گئی
نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا
وہ گلاب کی سوگند بن گئی
نہیں نہیں
پھر کہاں ہے
اے پالنہار اس دیوی
کو لوٹادے
کہاں ہے تو ہی جانتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں