پیر، 1 جون، 2009

تلاش



وہ جو محبت کی دیوی تھی
کہاں گئی کسی کو نہیں پتہ
وہ جو کانوں میں رس گھولتی تھی
جس کے میٹھے میٹھے بول
کسی کی جان کی دھڑکن تھے
کہاں گئی مجھے تلاش ہے
وہ اتنی شیریں تھی کہ
شہد بھی شرماتی تھی
وہ جب بولتی تھی
کائنات جھوم اٹھتی تھی
مگر اچانک یہ سناٹا
کہیں وہ چاند کی چاندنی تو نہیں بن گئی
نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا
وہ گلاب کی سوگند بن گئی
نہیں نہیں
پھر کہاں ہے
اے پالنہار اس دیوی
کو لوٹادے
کہاں ہے تو ہی جانتا ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں