منگل، 12 اپریل، 2011

غالب فطرت یا تربیت؟

عرب کے چوروں کا ایک گروہ پہاڑ کی ایک چوٹی پر قبضہ کرکے جا بیٹھا۔ یہ قافلوں کو کی گزرگاہ تھی اس گروہ نے گزرنے والوں کو اور تجارت کرنے والوں کا راستہ بندکردیا۔ ان کے قبضے نے سب کو خوفزدہ کردیا۔ بادشاہ نے کے لشکر بھی ان پر قابو پانے سے قاصر ہوگئے۔ آخرکار ملک بھر کے باسیوں نے ان پر قابو پانے کے لئے حفاظتی اقدامات کا مشورہ کیا۔ فیصلہ ہواکہ ان کو ڈھیل و مہلت نہ دی جائے ورنہ مقابلہ ناگزیر ہوجائیگا۔ کیونکہ جب کسی درخت کی جڑ نئی ہوتو اسے اکھاڑنا آسان ہے اور جب اسے کچھ مدت بڑھنے دیا جائے تو پھر اسے اکھاڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے اس تکلیف سے جان بچانے کو سر جوڑے۔ مشورہ کرکے ایک آدمی کو ان کی مخبری پر مقرر کردیا۔ جس نے حالات کا مطالعہ کرکے مطلع کیا۔ چند تجربہ کار جنگ جو اور جنگ آموزدہ کو مسلح اس جگہ بھیجا مگر وہ کمین گاہ سے باہر کہیں گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ جب چوررات کے وقت ڈاکہ ڈال کر مسافروں کا سامان  لوٹ کر آئے، انہوں نے مال کو ایک جگہ جمع کرکے رکھ دیا اور اپنے ہتھیار اتار کر گہری نیند سوگئے تو تجربہ کار افراد کے گروہ نے یک بارگی اپنی کمین گاہوں سے نکل کر حملہ کرکہ انہیں گرفتار کرلیا اور صبح بادشاہ سلامت کے حضور پیش کردیا۔ باشاہ سلامت نے سب کو قتل کردینے کا حکم دیا اتفاقاٌ چور کے گراہ میں ایک نوجوان تھا۔
جس کا آغاز جوانی تھا اور ابھی اس کی مونچھیں بھی نہیں پھوٹی تھیں۔ اس کی جوانی اور حسن کو دیکھ کر ایک رحم دل وزیر نے بادشاہ سلامت کے تخت کو بوسہ دی کر اس کی جان بخشی کی درخواست کی اور شاہی نوازشات، اخلاق و کرم سے توقع کرتے ہوئے اس کا خون معاف کرنے کی اپیل کی۔ اس پر بادشاہ برہم ہوگئے۔ نیز بادشاہ سلامت نے فرمایا جس کی بنیاد بری ہو وہ بھلے لوگوں کو پسن نہیں کرتا، اور نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہے جیسے کسی گیند کی چوٹی پر اخروٹ کو کھڑا کرنا۔ ایسے افراد کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے اس کو معاف کرنا گویا ایسا ہے جیسے سانپ کو ماردینا اور اس کے بچے کی حفاظت سے پالنا۔
وزیر نے نے بادشاہ سلامت کے ارشاد کو سنا، چاروناچار اس کے رائے کی تعریف کی۔ دوبارہ عرض گزار ہوا کہ یہ برے گروہ کا فرد ابھی بچہ ہے، اگر اسے نیک لوگوں کی صحبت مل جائے تو ان کی فطرت اختیار کرلے گا، سرکشی سے باز آجائے گا۔ بادشاہ کے مصاحبوں کی ایک جماعت نے بھی اس کے اشارہ پر بادشاہ سلامت سے اس لڑکے کے لئے سفارش کردی۔ ناچار بادشاہ نے اس کے قتل کے ارادہ سے ہاتھ اٹھالیا اور کہاکہ میں نے معاف کیا اگرچہ مناسب نہیں۔  لڑکے کی پرورش شاہی خزانہ سے نازونعمت سے ہونے لگی اسے تعلیم وتربیت دینے افراد مقرر کردیے گئے۔
سبھی افراد نے اس کی تعلیم و تربیت میں بڑی کوشش کی۔ سبھی اسے پسند کرنے لگے بلکہ ایک دن وزیر نے موقع پاکر اس کے اخلاق کا تذکرہ اور تعلیم و تربیت کے اثر کا ذکر بادشاہ سلامت سے کردیا اور یہ کہ دیا کہ اس کی پرانی نادانی کج طبیعت دور ہوگئے ہیں۔ بادشاہ سلامت نے وزیر کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا "آخر بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہوتا ہے۔ اگرچہ انسانوں کی صحبت میں پل کر بڑا ہو۔

درس حیات
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے
حاسد پر ہزاراحسان بھی کرو لیکن پھر بھی وہ دل سے تمہارا دشمن ہی رہے گا۔
حاسد ایسی آگ کا ایندھن ہوتا ہے جسے وہ خود اندر بھڑکاتا رہتا ہے۔
حاسد ہمیشہ دوسروں کو نقصان میں دیکھ کر سکون کا سانس لیتا ہے۔
کسی کی بدخواہی کی دعا نہ کرو۔ یہ دعا الٹ کر تہمارے حال کو خراب کرتی ہے اور اس کا کچھ نہیں بگڑتا
جو قسمت کی بلندی کا خواہش مند ہو۔ وہ اس عادت کے قریب سے بھی نہ گزرے
آنکھ کے اندھے ، دل کے اندھے سے بہتر ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں