جمعہ، 30 ستمبر، 2011

میں اور چین

میں بچپن سے ہی چین کے بارے میں جاننے کا خواہشمند رہاہوں اور اس کی بڑی وجہ چینی لوک کہانیں تھیں جو ہم پرائمری اور ہائی اسکول کے طالبعلمی کے دور میں پڑہتے تھے ان دنوں یہ کہانیاں نصابی کتب میں بھی ہوتی تھیں اور دیگر  بچوں کے اردو و سندھی رسائل میں  ترجمہ ہو کر شایع ہوتیں، ان دنوں وہ کہانیاں ہمیں اچھی لگتی تھی چونکہ عمر کا تقاضہ تھا  مجھے آٹھویں جماعت کے انگریزی کے کتاب میں پڑہی چینی لوک کہانی ابھی تک یاد ہے ۔ ظاہر ہے بچپن کی یادیں پوری عمر ساتھ چلتی ہیں۔ بچگانہ عمر میں ہی چینی کہانیوں کی وجہ سے  رغبت کی چین سے رغبت پیدا ہوگئی تھی، ان دنوں مواصلات کے اتنے ذرائع نہیں تھے جب میں تھا تو ایک دن ریڈیو کی سوئی گھماتے ہوئے اپنے محبوب ملک کا ریڈیو اسٹیشن مل گیا اور یہ آواز  سنی کہ " یہ ریڈیو بیجنگ ہے" حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ نشریات اردو میں چینی دوستوں کی آواز میں تھی گویا مجھے اپنے بچھڑاہومحبوب مل گیا۔ پہلے ہی دنوں میں میں نے ریڈیو چین شعبہ اردو کو خط لکھا نہ صرف خط نشر ہوا پر پروگرام گائیڈ اور ایک رسالہ میسنجر بھی ملا تھاخوش کی انتہا نہ رہی جب اس میسنجر میں چینی کہانی نظر آئی  پہلے روز ہی میں اس کہانی کا ترجمہ کیا اور ایک بچوں کے سندھی رسالے میں وہ کہانی شایع ہوئی اور اسی طرح آٹھویں  سے لے کر دسویں جماعت میں چینی کہانیوں کا ترجمہ کرتا رہا  اور یوں ریڈیو چین جس کو ہم ان دنوں پاک چینی دوستی کا پل کہتے تھے ایک رشتہ جڑگیا جو تا ابد قائم رہے گا  ریڈیو چین نے چین کے بارے میں ہمیں آگہی دی ، وہاں کے موسم، لوگ، ثقافت، معیشت اور امور کے بارے میں معلومات دیں۔
اب ہم چین کو مضبوظ معیشت والا ملک دیکھتے ہیں جس کی ترقی سے باقی ممالک خائف ہیں۔ چین اور پاکستان پڑوسی ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست ہیں اور ان کے روابط ایہ خاندان جیسے ہیں۔ چین نے ہرمشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ دونوں ممالک کا تعاون ہر سطح پر ہے یہ عوامی سطح پر بھی ہے تو سرکاری سطح پر بھی۔  دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔
میں جب چین کا ماضی دیکھتا ہوں تو بڑی حیرت ہوتی ہے  کہ چین پر جاپان کی یلغار اور چینی قوم کو نشے کا عادی بنانے کے باوجود نئی حکومت نے ان کو کیسے ایک عظیم قوم بنادیا، یہ واقعی عظیم قوم کا عظیم کام تھا اور باقی ممالک کے لئے نمونہ عمل ہے۔
چین میں 55 قومتیں ہیں اور یہ سب ایک لڑی میں جب پروئی جاتی ہیں تو پھولوں کا ہار لگتی ہیں اور اس ہار کانام ہے "چین"
چین کے بارے میں میری جانکاری   اپنے ملک کی طرح ہے
یکم اکتوبر عوامی جمہوریہ چین کے عوام کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتا ہے. چین اور دنیا کے دیگر ملکوں میں رہنے والے چینی باشندے اپنا یہ یوم آزادی پورے قومی جوش و جذبے اور وقار سے مناتے ہیں ۔ساٹھ سال پہلے خانہ جنگی کے اختتام پر عوامی جمہوریہ چین نے آزادی حاصل کی تھی اس کے بعد وہ مختلف مراحل سے گذرتا رہا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا آج وہ معاشی طورپر دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے ۔بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قومیں اپنے لیڈروں کی قیادت میں منزلوں کی سمت سفر کرتی ہیں چینی قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انہیں ماﺅزے تنگ جیسا لیڈر ملا جس نے آزادی سے لے کر 1976تک اپنی قوم کی مخلصانہ قیادت کی اور قوم کو اس منزل تک پہنچایا جہاں سے اس کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی تھی اس مرحلے پر ایک اور عظیم قائد ڈےنگ ژےاﺅ پنگ نے قوم کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا انہوں نے معاشی اصلاحات کاآغاز کیا انہوں نے جو اوپن ڈور پالیسی اختیار کی تھی اس نے چین کوعظیم اقتصادی قوت بننے کی منزل سے ہم کنار کردیا۔جس سفر کا آغاز ماﺅزے تنگ نے کےا تھا اور قوم کو لے کر اس راستے پر ڈینگ ژےاﺅ پنگ آگے بڑھے تھے چینی قوم کی تیسری نسل بھی اسی سفر پر رواں دواں ہے ۔موجودہ چینی قیادت قومی مفاہمت‘ امن و آشتی اور معاشی ترقی کے رہنما اصولوں کے تحت کام کر رہی ہے ۔چےن دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جس نے بدترین بین الاقوامی کساد بازاری کے باوجود اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا جو زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر اور صنعتی ترقی کی جامع پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے ۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے عوامی جمہوری چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا تب سے آج تک چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں پاک چین دوستی کو قوموں کی برداری میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند‘ سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔
چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اس وجہ سے چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25اکتوبر1971چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں ۔چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے ۔مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹے اور کمزور اقوام کے تحفظ کے لئے موثر کردار ادا کر رہا ہے ۔اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دےنے پر توجہ دی ۔1970کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کردئےے تھے جن میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی ایک اہم پےش رفت قرار دیا جاسکتا ہے ۔شنگھائی تعاون تنظیم‘ کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے چھ ملکی مذاکرات‘ چین افریقن تعاون تنظیم ‘بیجنگ سربراہ اجلاس ‘ ایشیاءیورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹونٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں اپنے فعال کردارکی وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے ۔ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناطے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔چےن دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلاءمیں بھیجے۔ساٹھ سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلاءکو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کاجامہ پہنایا ہے ۔

پاک چین دوستی زندہ باد

2 تبصرے:

  1. Bahut shukriya, itna acha likha apne aur China ke baarey mein. Magar maine ye kahin nahi dekha ke aap jo sindhi magzin mein kahaani tarjuma kar ke bhjtey they, wo urdu se sindhi kartey they ya Chines se sindhi? kiyun ke aapko chinese to us wakt aati hi nahi hogi?

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. میں انگریزی سے ترجمہ کرتا تھا نہ اردو سے، ان دنوں میسنجر میرے پاس آتا تھا اور اس میں چینی لوک کہانیاں لکھی ہوتی تھیں۔

      حذف کریں