منگل، 8 جولائی، 2008

علم و اسلام

حدیث شریف ہے کہ "طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ" یعنی علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر واجب ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ علم حاصل کرنا فرض ہے، اعتراض کرنے والے کہ سکتے ہیں کہ فرض تو اللہ تعالٰی کی جانب سے ہوتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں تو مؤبانہ گزارش ہے کہ ایک آیۃ کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اس وقت تک کلام نہیں کرتے جب تک وحی نہ ہو۔
اب یہ اہم سوال ہے کہ کونسا علم حاصل کرنا چاہیے آیا دینی علم ہی ضروری ہے یا دوسرے علوم بھی حاصل کرنے چاہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ  علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کرلو چاہے کافر کے پاس سے ملے ، کیا کافر کے پاس قرآن ، حدیث یا فقہ کا علم ہوگا جواب ہے نہیں تو یہ کونسا علم ہے؟
اسی طرح ایک اور حدیث ہے
"اطلبوالعلم ولوکان بالصین"
ترجمہ   علم حاصل کرو چاہے آپ کو چین جانا پڑے ان دنوں جب آمد و رفت کے ذرائع محدود تھے لوگ گھوڑوں، گدھوں ،اونٹوں اور خچروں پر سفر کرتے اور چین انتہائی دور تھا اس سے آنحضرت کیا سمجھانا چاہےتھے کیا چین میں کوئی مذہبی مدرسہ تھا یا اسلام کا مرکز۔ صاف ظاہر ہے حضور سمجھانا چاہتے تھے  کہ علم کے لئے صعوبتیں  اور مصیبتیں بیان کرو جہاں جانا پڑے جاؤ مگر علم کے حصول ضرور ی ہے۔ اگر اس حدیث سے ثابت کیا جائے کہ جناب اس سے مراد تو صرف علم دین ہے تو غلط ہوگا اگر اس سے مراد صرف ہےعلم دین ہوتا  تو عرض ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود ارض مقدس میں موجود  ہیں تو پھر چین جانے کی کیا ضرورت۔
استاد مرتضیٰ متطہری نے بھی اس حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے، اس کتاب کی رو سے المختصر ہر وہ علم دینی علم ہے جس سے معاشرے کو فائدہ ہو چاہے انجنیئرنگ ہو کا علم ہو طب کا علم ہو، فلکیات، معیشت، تجارت یا دیگر اس طرح کے علوم۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ صرف یہی علوم ضروری ہیں بلکہ قرآن، عقائد، فقہ، حدیث اور دیگر علوم بھی انتہائی ضروری ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں