پیر، 22 ستمبر، 2014

وی آئی پی کلچر

چند روز پہلے جو کچھ کراچی ایئرپورٹ پر ہوا اور دو سیاستدانوں سے جو برتاؤ کیا گیا جو اس چیز کا غماز ہے کہ لوگ اب وی آئی پی کلچر سے بیزار ہوچکے ہیں۔ میں وی آئی پی کلچر کا مخالف نہیں مگرمیری نظر میں وی آئی پی کلچر کی تعریف اور ہے، میری نظر میں پاکستان میں دو ہی وی آئی پی لوگ ہیں، ایک ہیں عبد الستار ایدھی اور دوسرے ہیں جناب ادیب الحسن رضوی، یہ دونوں اشخاص ہی صحیح معنوں میں انسان ہیں اور ڈاکٹر ادیب الحسن کے ہسپتال میں ہر مریض کو وی آئی کو سمجھا جاتا ہے اور مریضوں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور جناب ایدھی صاحب بھی اسی طرح خدمت فرمارہے ہیں۔ باقی جو مرجہ وی آئی پی کلچر ہے اس کی معنی ہے خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا، اگر یہ سیاستدا ن اور دوسرے نام نہاد وی آئی پی لوگ اصل میں اگر ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کریں تو عوام ان کی دل سے عزت کرے گے مگر یہاں الٹ سسٹم ہے۔ پاکستان میں وی آئی پی پروٹوکول دیتے وقت عوام الناس کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے، روڈ پر وی آئی پی موومنٹ کے دوران سارے قوانین کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے، لوگوں کے لئے راستے بند کیے جاتے ہیں، بعض اوقات فلائٹس کو دیر کروائی جاتی ہے۔ کئی بار دیکھا ہے کہ وی آئی پی لوگ روڈ پر نصب اشاروں پر نہیں رکتے، کیا یہ لوگ آسمانی مخلوق ہیں؟ ان کو بھی ہماری طرح اشاروں پر رکنا چاہیے۔ جب ہمارے لوگ دیکھتے ہیں کہ روسی صدر خود اپنی گاڑی میں فیول بھرتا ہے یا سئزرلینڈ کا کوئی رہنما سائیکل چلاتا ہے اور اپنے ملک میں دیکھتا ہے کہ وی آئی پی لوگ عوام کے پئسوں سے عوام کے لئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں تو ان کے دلوں میں ایک لاوا پکنا شروع ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں میں سکھر سے واپس آرہا تھا کہ جیسے ہی اسٹاپ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں پولیس کی بھاری نفری تھی اور ان کا کام اسٹاپ پر کھڑی گاڑیوں کو نکلوانا تھا، اسٹاپ تو خالی ہوگیا مگر لوگوں کو کافی مشکل کا سامنا کرنا، صرف ایک شخص کی وجہ سینکڑوں لوگوں کو تکلیف پہنچائی گئی۔ کراچی واقعے کے بعد سیاستدانوں کو چاہیے کہ ملکی قوانین پر عمل کریں تو لوگ ان کی عزت کریں ورنہ اب عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ 
یہ تحریر ووئس آف امریکہ کے لئے لکھی گئی تھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں