پیر، 15 ستمبر، 2014

اور ہم نے پہلی بار پسٹل خریدلیا

ہمیں بچپن سے ہی کتابیں پڑہنے کا شوق رہا ہے اب یہ دوسری بات ہے کہ کمیپوٹر استعمال کرنے کے بعد یہ شوق ختم ہوگیا اب ہر چیز تلاش کرنے سے مل جاتی ہے، بچپن میں ہم آنکھ مچولی، نونہال، پھول، بچوں کا وحدت اسلامی و دیگر سندھی جرائد پڑہتے تھے۔ ہم آٹھویں جماعت میں تھے اور اکثر بچوں کی کتابیں بیچنے کےلئے لوگ لاہور یا ملتان سے آجاتے تھے چھوٹے چھوٹے کتابچے ہوتے تھے اور ساتھ ہی چھوٹی جنتری بھی بیچتے تھے، ہم نے بھی ایک روپے میں ایک جنتری خرید لی، جنتری میں اشتہارات بھی تھے۔ ایک اشتہار پر نظر پڑی، اشتہار میں جو کچھ لکھا ہوا تھا اس پر ہمیں صد فیصد یقین ہوگیا، یہ اشتہار ایک پسٹل کے بارے میں تھا جس کی کئی خصوصیات تھیں۔ خصوصیات اس طرح کی تھیں جیسا کہ وہ پسٹل انسان مارنے کے علاوہ سارے کام کرسکتا ہے مثلاً اس کی آواز سنتے ہیں جانور بھاگ جاتے ہیں، اتنی گرجدار آواز کے لوگ دور دور تک سن سکتے تھے، اب ہمیں پسٹل حاصل کرنے کا اشتیاق بڑہ گیا مگر مسئلہ پئسوں کا تھا ان دنوں ہمارے پاس تو چونی بھی نہیں تھی اور پسٹل کی رقم 80 روپے تھی، یہ رقم 1992 میں بہت بڑی رقم تھی۔ میں نے پڑوس میں ایک بندے کو پسٹل کے بارے میں بتا یا اور خصوصیات گنوائیں اور ساتھ ہی یہ کہہ ڈالا کہ یہ سب کچھ سچ ہے، میں نے کہا کہ میرے پاس پئسے نہیں ورنہ ہم ضرور لیتے، میری باتوں سےوہ بندہ بھی کافی متاثر ہوا، اس نے کہا کہ پسٹل کا آرڈر دیدو میں پئسے دے دوں گا، میں نے کمپنی کو خط لکھا اور پسٹل کا آرڈر دے دیا، چند روز کے بعد ڈاکیا میری کلاس میں آیا اور کہا کہ آپ کی وی پی آئی ہے میں نے کہا کل لے لوں گا۔ میں اس بندے کے پاس گیا کہ پسٹل آگیا ہے اب پئسے دے دیں تاکہ پسٹل لاکر دوں، اس نے اپنی مرغی بیچی اور 80 روپے پکڑادیے، اگلے روز ہم ڈاکخانے گئے ، ہم بڑے ڈرے ہوئے تھے کہیں ڈاکخانے والوں کو پسٹل کا پتہ نہ لگ جائے اور بات پولیس تک نہ پہنچ جائے، ہم نے وہ پیکٹ وصول کیا اور پیکٹ کو رومال میں لپیٹ لیا، ہم بڑے خوش تھے کہ اگر رات کو چور آئے تو اس پسٹل سے فائر کریں گے اور چور بھاگ جائیں گے اور ہماری واہ واہ ہوگی، ہم اپنی پرانی سائیکل پر گاؤں پہنچے مگر گھر نہیں آئے ، گھر سے دور ایک ویرانے کے پاس سائیکل کو کھڑا کیا اور پیکٹ سمیت تھوڑا دور چلے گئے تاکہ پسٹل کا جائزہ لے سکیں، لو جی آخر کار ہم نے پیکٹ کھولنے کی ہمت کی ، ہاتھ کانپ رہے تھے، پیکٹ کھولنے کے بعد ہمارےسامنے تاریکی پھیلنے لگی وہ پسٹل تو ضرور تھا مگر بچوں والا جو ہمیں پانچ روپے کا ملتا تھا۔ اس دھوکے کے بعد آج تک کوئی دھوکہ نہیں کھایا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں