جمعرات، 10 نومبر، 2016

کمپیوٹر میں اردو کی تنصیب کریں۔

پیر، 7 دسمبر، 2015

نوجوان انتہاپسندی کی طرف کیوں مائل ہورہے ہیں؟

جو کچھ فرانس میں ہوا اس پر ہم سب افسردہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان انتہاپسندی کی طرف کیوں مائل ہورہے ہیں تو اس کا جواب اتنا سادہ اور آسان نہیں، اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ میری نظر میں نوجوانوں کا دہشتگردی کی طرف مائل ہونا دین سے دوری کا سبب ہے، اصل دین کبھی کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا مگر کیا کیا جائے یہ سب کچھ دین کے نام پر ہورہا ہے اور نوجوانوں کی اکثریت تو دہشتگردی کی طرف مائل نہیں ہورہی صرف ایک اقلیت ہے۔ دنیا میں جو حالیہ دہشتگردی ہورہی ہے اس کے پیچھے خود امریکہ و دیگر مغربی ممالک ہیں، امریکہ نے ہی نام نہاد جہاد کو سوویت افغان جنگ میں فروغ دیا اور نام نہاد مجاہدین کی مالی مدد کی اور ان کو تربیت دی، اس کے بعد امریکہ تو نکل گیا مگر پاکستان اس کے چنگل میں آگیا۔ داعش کا وجود بھی امریکہ کی ہی مرہون منت ہے جس نے بشار الاشد کی حکومت کو گرانے کے لئے ایک جنگجو ٹولہ تیار کیا ج بعد میں داعش میں شامل ہوگیا اور ابھی بیگناہ لوگوں کو مارہا ہے، عراق پر ایک جھوٹا الزام لگا کر حملہ کیا اور آج جو کچھ وہاں ہورہا ہے اس کے پیچھے امریکہ کا ماضی کا کردار ہے۔ لبیا میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ امریکہ جمہوریت کا عالمی چیمپئین بننے کی کوشش کررہا ہے مگر جمہوریت سے اسے کوئی غرض نہیں، جہاں اس کے مفادات ہوتے ہیں وہاں آمریت بھی آنکھوں پر ہوتی ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے اور باقی ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی بند کرے ورنہ یہ سلسلہ شدت سے جاری رہے گا۔ مسلمان علماء بھی مصلحت کا شکار ہیں اور کھل کر ان کی مخالفت نہیں کررہے، ان کو ڈر ہے کہ کہیں یہ جنگجو خود ان کی جان نہ لے لیں۔ پاکستان میں مولانا حسن جان اور مولانا نعیمی کو طالبان کے خلاف فتویٰ دینے کی وجہ سے ماراگیا ۔ ایک وجہ سوشل میڈیا کا استعمال بھی ہے جہاں یہ لوگ سادہ نوجوانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں اس میں غربت کو کوئی عنصر شامل نہیں اور تعلیم کا نہ ہونا ہے۔

جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

ریڈیو اب ماضی کا قصہ بنتا جارہاہے

ریڈیو کی ایجاد ایک ایسی ایجاد تھی جس نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا بلاشبہ مارکونی کی یہ ایجاد ایک معجزے سے کم نہیں تھی دیہاتوں کیا شہروں کے لوگ ریڈیو رکھتے اور سنتے تھے۔ ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ وہ جوانی میں تفریح کے لئےآل انڈیا اور ریڈیو سیلون (سریلنکا) سنتے تھے جبکہ خبروں کے لئے بی بی سی اردو سنتے تھے۔ مگر ٹی وی کی آمد آمد سے لوگوں کی ریڈیو سے دوری شروع ہوتی چلی گئی اور آج حالت یہ ہے کہ کسی کو ریڈیو سننے کی دعوت دیں تو وہ جواب ملتا ہے ہم کوئی بابے نہیں۔
باقی ممالک میں ریڈیو کی اہمیت اسی طرح باقی ہے جس طرح اخبار کی حتیٰ کہ امریکی صدر بھی ریڈیو سے خطاب کرتے ہیں مگر ہم پاکستانیوں کا عجیب معاملہ ہے۔ اس عظیم ایجاد سے اس طرح سے استفادہ نہیں کرپارہے جس طرح باقی دنیا کے لوگ کررہے ہیں خصوصی طور پر امریکہ کے لوگ۔ ریڈیو سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد ریڈیو اسٹیشن بند ہوتی گئیں جن میں سرفہرست ریڈیو صدائے روس (ریڈیو ماسکو)، ڈوئچے ویلے، ریڈیو تاشقند اور ریڈیو زاہدان جیسی مشہور اسٹیشن شارٹ ویو سے غائب ہوگئیں اور رفتہ رفتہ باقی ریڈیو اسٹیشن بھی بند ہورہیں۔ مشنری ریڈیو اسٹیشن جن کے بند ہونے کا امکانات کم تھے وہ بھی بند ہورہی ہیں فیملی ریڈیو،  دی ووئس آف ایشیا اور فیبا ریڈیو کے چند پروگرام بند ہوچکے ہیں۔
سامعین کی اکثریت بی بی سی سنتی ہے مگر بی بی سی نے بھی صبح کی نشریات جو کہ صبح نامہ کے نام سے پیش کی جاتی تھی وہ بھی بند کردی اور شب نامہ تو پہلے ہی بند ہوگیا تھا۔
امریکہ کے کسی انجیئر نے کہا تھا کہ ریڈیو کی آواز آخر تک سنی جائے گی۔ اب پاکستان میں اکثر ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہوچکی ہیں۔ ایف ایم کی نشریات کا ٹارگیٹ محدود ہوتا ہے اس لئے اس کی نشریات صرف مخصوص ایریا تک محدود ہیں۔ لہٰذا شارٹ ویو اور میڈیم ویو کی ضرورت اب بھی ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی بجلی کی سہولت میسر نہیں اور جہاں ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہے اس تناظر میں ریڈیو کی اہمیت اب بھی باقی ہے۔
جو ریڈیو ریڈیو اسٹیشن اب باقی ہیں ان سے مضبوط رابطہ رکھا جائے شاید چند ایک اسٹیشن بچ جائیں۔