جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

ریڈیو اب ماضی کا قصہ بنتا جارہاہے

ریڈیو کی ایجاد ایک ایسی ایجاد تھی جس نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا بلاشبہ مارکونی کی یہ ایجاد ایک معجزے سے کم نہیں تھی دیہاتوں کیا شہروں کے لوگ ریڈیو رکھتے اور سنتے تھے۔ ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ وہ جوانی میں تفریح کے لئےآل انڈیا اور ریڈیو سیلون (سریلنکا) سنتے تھے جبکہ خبروں کے لئے بی بی سی اردو سنتے تھے۔ مگر ٹی وی کی آمد آمد سے لوگوں کی ریڈیو سے دوری شروع ہوتی چلی گئی اور آج حالت یہ ہے کہ کسی کو ریڈیو سننے کی دعوت دیں تو وہ جواب ملتا ہے ہم کوئی بابے نہیں۔
باقی ممالک میں ریڈیو کی اہمیت اسی طرح باقی ہے جس طرح اخبار کی حتیٰ کہ امریکی صدر بھی ریڈیو سے خطاب کرتے ہیں مگر ہم پاکستانیوں کا عجیب معاملہ ہے۔ اس عظیم ایجاد سے اس طرح سے استفادہ نہیں کرپارہے جس طرح باقی دنیا کے لوگ کررہے ہیں خصوصی طور پر امریکہ کے لوگ۔ ریڈیو سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد ریڈیو اسٹیشن بند ہوتی گئیں جن میں سرفہرست ریڈیو صدائے روس (ریڈیو ماسکو)، ڈوئچے ویلے، ریڈیو تاشقند اور ریڈیو زاہدان جیسی مشہور اسٹیشن شارٹ ویو سے غائب ہوگئیں اور رفتہ رفتہ باقی ریڈیو اسٹیشن بھی بند ہورہیں۔ مشنری ریڈیو اسٹیشن جن کے بند ہونے کا امکانات کم تھے وہ بھی بند ہورہی ہیں فیملی ریڈیو،  دی ووئس آف ایشیا اور فیبا ریڈیو کے چند پروگرام بند ہوچکے ہیں۔
سامعین کی اکثریت بی بی سی سنتی ہے مگر بی بی سی نے بھی صبح کی نشریات جو کہ صبح نامہ کے نام سے پیش کی جاتی تھی وہ بھی بند کردی اور شب نامہ تو پہلے ہی بند ہوگیا تھا۔
امریکہ کے کسی انجیئر نے کہا تھا کہ ریڈیو کی آواز آخر تک سنی جائے گی۔ اب پاکستان میں اکثر ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہوچکی ہیں۔ ایف ایم کی نشریات کا ٹارگیٹ محدود ہوتا ہے اس لئے اس کی نشریات صرف مخصوص ایریا تک محدود ہیں۔ لہٰذا شارٹ ویو اور میڈیم ویو کی ضرورت اب بھی ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی بجلی کی سہولت میسر نہیں اور جہاں ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہے اس تناظر میں ریڈیو کی اہمیت اب بھی باقی ہے۔
جو ریڈیو ریڈیو اسٹیشن اب باقی ہیں ان سے مضبوط رابطہ رکھا جائے شاید چند ایک اسٹیشن بچ جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں