جمعرات، 31 جولائی، 2008

صدائے ترکی کو پسند کرنے کی وجہ

بچپن میں جب ساتویں کلاس میں تھا تو عظیم ترک رہنما جناب مصطفی کمال اتاترک کے بارے میں پڑھا تھا ، اس وقت  اس سبق کی اہمیت و افادیت کا ادراک نہیں تھا  مگر کمال اتاترک کا نما ذہن میں نقش ہو گیا اور  جیسے جیسے شعور پختہ ہوتا گیا  اور عمر بڑھتی گئی تو بدقسمتی سے جمہوریہ ترکی اور ترک معاشرے کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ سننے کو ملا تب سے ایک آرزو تھی کہ منفی پروپیگنڈہ کے بارے میں تحقیق کی جائے اور صحیح صورتحال کا پتہ لگایا جائے۔ گاؤں میں تو اس طرح کی سہولت نہیں تھی کہ تصویر کا صحیح رخ کا پتہ لگایا جائے۔ میری بدقسمتی کہ مجھے جو بھی لٹریچر ملا وہ جدید ترک معاشرے  کے  خلاف غلط پروپیگنڈہ پر مشتمل تھا یہ لٹریچر مقامی انتہاپسندوں کی جانب سے تھا۔ ان دنوں جب گاؤں میں تھا ذرائع ابلاغ  میں سے صرف ریڈیو تک رسائی تھی مگر ناپختہ ذہن ہونے کی وجہ سے صحیح استفادہ نہیں کرسکا ان دنوں ریڈیو صدائے ترکی کی نشریات پاکستانی وقت کے مطابق شام بجے آتی تھیں میں صرف خبروں تک محدود رہتا تھا یہ نوے کی دہائی کا دور تھا۔
پاکستان میں جب جنرل پرویز مشرف نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور برملا کہا کہ کمال پاشا میرے آئیڈل رہنما ہیں تو  مجھے کمال پاشا کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوا اور سنجیدگی سے تحقیق کرنے کا سوچا مگر تعلیم اور روزگار کی وجہ سے اس جانب کوئی توجہ نہ دے سکا۔
ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے پچھلے سال میں نے دوبارہ صدائے ترکی سننے کی کوشش کی مگر ریڈیو سیٹ نے ساتھ نہیں دیا  مجھے پتہ نہیں تھا کہ پروگرام انٹرنیٹ پر بھی آتے ہیں۔ اچانک ایک دن تلاش کرتے ہوئے  ریڈیو صدائے ترکی کی سائٹ تک پہنچا اور وہاں سے ای میل کا پتہ حاصل کیا اور ای میل کیا تو کچھ دنوں بعد جواب بھی مل گیا، بڑی مسرت ہوئی پروگرام گائیڈ اور دیگر لٹریچر ملنے سے حوصلہ افزائی ہوئی۔
بعد میں آن لائن پروگرام سننا شروع کیے تب سے باقاعدگی سے پروگرام سن رہا ہوں اگر نیٹ پر سے ایک نشریات نہیں سن پاتا تو دوسری یا پھرتیسری سن لیتا ہوں۔ اب تو صدائے ترکی سی اتنی محبت ہوگئی ہے کہ سنے بغیر چین نہیں آتا۔ میں نہ صرف خود سنتا ہوں مگر انٹرنیٹ پر اور دیگر فورمز پر اس کو متعارف بھی کرواتا ہوں۔۔
ریڈیو صدائے ترکی پسند کرنے کی اور کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ کمال اتاترک کی شخصیت کا سحر ہے جس نے ترک کو جنگ و جدل سے نکال کر ترقی کے جدید شاہراہ پر لگادیا گوکہ وہ خود 1938 ع اس دنیا سے چلے گئے مگر ترک قوم کو ایک جدید فکر دیکر گئے اور یورپ کے ساتھ لاکھڑا کیا اور ان کا دیا ہوا نظام زندہ جاوید ہے۔ جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا نے سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کر کے ملک کو ایسا آئین دیا جو جدیدیت اور ترقی کی بنیادوں پر استوار ہے اور چیز نے بھی صدائے ترکی کی جانب متوجہ کیا  دیگر وجوہات میں ترکی اور پاکستان دو برادر و دوست ممالک ہونا شامل ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا  ساتھ دیا ہے۔ 
مسئلہ آرمینیا کے حوالے سے بھی کافی پروپیگنڈہ سننے کو ملا تھا اور کافی سوالات تھے مگر صدائے ترکی کے بدولت سارے شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں  اور  ابہام ختم ہوگئے اور صحیح صورتحال کا پتہ لگا ۔ ترک فنکار اور ترک موسیقی نے اپنے جانب راغب کیا۔ سیاحت کے حوالے سے اناطولیہ کے رنگین گوشے اپنی مثال آپ ہے اگر کبھی زندگی میں موقع ملا تو سیر کروں گا۔ متنازعہ جزیرہ قبرص کے حوالے سے بچپن میں پڑھا تھا مگر صحیح پتہ نہیں لگا تھا لیکن صدائے ترکی کی مابدولت حقیقت کا ادراک ہو یہ سب صدائے ترکی کی وجہ سے ہوا۔ ہر پروگرام اپنی مثال آپ ہے مگر مجھے کمال اتاترک کے حوالے سے پروگرام اچھے لگتے ہیں۔ 
ہمارے ملک کے بھی کافی خراب حالات رہے ہیں، میں کافی بار سوچتا ہوں کہ کیا ہمارا معاشرہ بھی جدید ترکی کی طرح سیکولر نظام کے متحمل ہو سکتا ہے  اور دوستوں سے پوچھتا ہوں لیکن اس سلسلے میں ملی جلی آراء پائی جاتی ہیں۔ آج جدید ترکی ایک قابل تقلید ملک بن چکا ہے  اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی منازل طئے کررہاہے۔ ترکی اور توانائی جیسے پروگراموں سے توانائی کے شعبے میں کافی جانکاری ملتی ہے حتی کہ یہاں کے مقامی  کافی صنعتکار ترکی سے مشینری منگواتے ہیں اور کافی مطمئن رہتے ہیں۔
جیساکہ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ کافی غلط فہمیاں تھیں اور لٹریچر بھی غلط پروپیگنڈہ پر مشتمل ملتا تھا جب ریڈیو سنا تو پتہ لگا کہ یہ ہی وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے ترکی پسماندہ ہورہا تھا اور وہ ہی مسائل کی جڑ تھے اور اب پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔
صدائے ترکی ہی کے طفیل پتہ لگا کہ کس طرح کمال اتا ترک نے ترک اداروں کے مظبوط کیا اور ترکی میں امن لے آئےخانہ جنگی جیسی صورتحال پر قابو پایا ، اقتصادی اور ثقافتی اصلاحات کیں، مذہب اور حکومت کو علیحدہ  کرکہ سیکولر نظام حکومت قائم کیا  اور یہ  ترکوں کی خوش قسمتی  تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی سامراجیوں کے خلاف ترکوں کی جنگ آزادی کی قیادت مصطفی کمال پاشا کے ہاتھ آ ئی جنہوں نے ترکوں کی تقدیر ہی بدل دی اور ملک میں جدیدیت کو فروغ دیا  انھوں نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی دوررس اصلاحات نافذ کیں اور ترکیہ بڑی تیزی سے شاہراہ ترقی پر قدم بڑھانے لگا۔ 1923ء مصطفی کمال کو اتاترک یعنی ''ترکوں کا باپ ''کے لقب سے نوازا گیا۔ جدید ترکی کی بنیادیں مساوات برابری اور انصاف کے اصولوں پر رکھی گئیں ۔عورتوں کو مساوی حقوق عطا کئے گئے ۔ اتاترک نے یورپ کے ''مرد بیمار '' کو ایک بار پھر قدموں کی باعزت صف میں کھڑا کر دیا اور ایک مضبوط آئیں دیا۔ تاریخ کا رُخ موڑنے والی اس عظیم وتاریخ ساز شخصیت کا انتقال 10نومبر 1938ء کو ہوا۔ یہ ساری معلومات ریڈیو صدائے ترکی کی مرہون منت ہے 
مختصر صدائے ترکی کی وجہ سے جدید ترکی کے بارے میں جانکاری اور معلومات ملتی ہے اور ذہن میں جو سوالات تھے ان کے تسلی بخش   اور مدلل  جوابات مل گئے دیگر یہ کہ صدائے ترکی کے پروگرام زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتے ہیں ، تمام پروگرام حقیقت پر مبنی اور غیرجانبدار ہوتے ہیں  خبروں کا معیارانتهائی اچھا ہے اور صدائے ترکی کے پروگرام ذاتی زندگی میں بھی اثرانداز ہورہے ہیں اور ایک مثبت تبدیلی لاررہے ہیں اور دماغ کے بند دریچے کے بھی کھل رہے ہیں اور سوچ اور فکر میں بھی تبدیل آرہی ہے۔ صدائے ترکی پائندہ باد۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں