وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ۔
عورت دشمنی کے حوالے سے مجھے ماریہ شاہ کے کیس نے لکھنے پر مجبور کیا ہے کچھ دنوں پہلے کراچی کی کسی ہسپتال میں ماریہ شاہ زندگی کی بازی ہار گئی کافی فوٹو سیشن ہوئے۔ شیریں رحمان و دیگر وزراء نے تصاویر بنوانے کے علاوہ بچاری ماری شاہ کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ اس کا بیرون ملک سے علاج کروایا گیا۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ شکارپور سے تعلق رکھنے والی ماریہ شاہ پر کسی ارسلان سنجرانی نامی لڑکے نے اس وجہ سے تیزاب چھڑکا کہ اگر وہ میری نہیں ہوسکتی تو کسی کی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہائے رے ارسلان سنجرانی تو خود کیوں نہیں گیا چہ جائیکہ کسی بیگناہ کی زندگی لے لی۔
عورت سے دشمنی ہمارے معاشرے میں کوئی ڈھکی چھپی نہیں ،پتہ نہیں ہم ابھی تک شاید عورت کو انسان ہی تسلیم نہیں کیا۔ ہمارے گاؤں میں ایک عورت کے رونے کی آوازیں ہم روزانہ سنتے تھے اس کا شوہر اس کو روزانہ مارتا تھا وجہ کیا تھی اللہ بہتر جانتا ہے آخر ایک دن وہ کھمبے پر چڑہ گئی مگر پڑوسیوں نے اس کو کسی طرح نیچے اتارلیا مگر کچھ دنوں کے بعد پتہ لگا کہ اس نے زرعی دوائی پی لی ہے اور اسی وجہ سے مرگئی تھی جبکہ حقیقت حال یہ تھی کہ اس کو مارا ڈنڈوں سے مارا گیا تھا مگر بعد میں دوائی منہ میں ڈالی گئی تھی کچہ بزنس پولیس کا ہوا اور کچھ اس کے والد کے پئسے ملے اور یوں یہ کیس ختم ہوگیا اس طرح کے لاتعداد کیس ہوتے ہیں خاص طور پر اندرون سندھ میں۔
یہ عورت دشمنی نہ صرف ہمارے ملک میں ہے مگر مغرب میں بھی پائی جاتی ہے، مغربی مرد تو تھری پیس سوٹ میں رہتے ہیں مگر عورت کو نیم برہنہ کردیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں